آدرش

آدرش


’پاپا آ گئے۔۔۔۔۔پاپا آ گئے۔۔۔۔۔“ علی سکندر اپنے پاپا کی طرف لپکتا ہے جو ابھی آفس سے واپس آئے ہیں۔ ”پاپا چلیں کھیلتے ہیں۔۔۔۔۔ چلیں نا میرے ساتھ۔۔۔۔۔پلیز پاپا۔“ اس کا معصوم دل اپنے باپ کی توجہ کا متمنی تھا۔ مگر اس کا باپ تھکاوٹ کا عذر پیش کرتے ہوئے کہتا ہے: ”بیٹا آپ جا کر ٹی وی پر اپنے پسندیدہ کارٹون دیکھ لیں۔“ اور علی کھیل کی فطری خواہش کو اپنے دل میں دبائے ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتا ہے۔۔۔۔۔شاید وہ معصوم خواہش آئندہ کبھی سر نہ اٹھائے۔


۔۔۔۔۔
”ماما آپ کہاں جا رہی ہیں۔۔۔۔۔؟ مجھے بھی لے جائیں نا۔۔۔۔۔“ معصوم دل سے اک اور خواہش سطح سمندر پر اٹھنے والے بھنور کی طرح سر ابھارتی ہے۔ ”نہیں بیٹا۔۔۔۔۔میں اپنی پارٹی میں جا رہی ہوں۔۔۔۔۔آپ کو نہیں لے جا سکتی۔ آپ ویڈیو گیم کھیلو جو پاپا نے آپ کو سالگرہ پر دی تھی۔ اور اگر بور ہو جاؤ تو ٹی وی لگا لینا۔“ گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی تو ماں اپنے بچے کو پچکارتی ہوئی باہر نکل جاتی ہے۔



۔۔۔۔۔
بیس سال بعد۔۔۔۔۔
”ارے یہ کیا۔۔۔۔۔کورٹ کا نوٹس“


سکندر مرزا کو اپنے بیٹے کی طرف سے ملنے والے کورٹ نوٹس پر سکتہ ہو گیا۔
اپنے بیٹے سے استفسار کرنے کمرے میں گئے تو دروازے پر ہی ساکت ہو گئے گو یا کسی ان دیکھی قوت نے ان کے پاؤ جکڑ لیے ہوں۔ اس کے ہاتھ میں 
 سگریٹ دیکھ کرشاکڈ رہ گئے۔
ہوش تو تب آئی جب علی سکندر پاٹ دار لہجے میں بولا:۔ ”تمیز نہیں ہے آپ کو۔۔۔۔۔؟ دروازہ کھٹکھٹا کر اندر آیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ خیر جلدی بولیں۔۔۔۔۔ مجھے کہیں جانا ہے۔“ سکندر مرزا کورٹ کا نوٹس لیے آگے بڑھتے ہیں۔۔۔۔۔ ہر قدم جیسے منوں بھاری ہو گیا ہو۔۔۔۔۔ ہر سانس آخری ہونے کی آس میں ہو۔۔۔۔۔ اپنے لختِ جگر کو کورٹ کا نوٹس دکھاتے ہیں اس امُید پر کہ شاید یہ غلط ہو۔۔۔۔۔ مگر حقیقی دنیا میں واپس تب آتے ہیں جب علی کہتا ہے:۔ ”یہ میرا حق ہے! آپ میری جائیداد پرغاصب ہیں۔ ویسے بھی آپ قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں۔۔۔۔“ ”بیٹا یہ کیا کہہ رہے ہو؟ کیا اتنے پیار سے پال پوس کر اس لیے بڑا کیا تھا؟ یہ تربیت تو نہیں دی تھی میں نے۔۔۔۔۔“ سکندر مرزا کی گھٹی گھٹی آواز آئی۔ ”تربیت۔۔۔۔۔؟؟ وہ نفرت سے بولا۔۔۔۔۔ میری تو یہی تربیت ہوئی ہے۔۔۔۔۔ مجھے تو یہی سکھایا گیا ہے۔ میری تربیت کے مربی نے ہی جائیداد میں میرے حق دار اور آپ کے غاصب ہونے کا بتلایا ہے۔ اور آپ کہتے ہیں تربیت!!! ہونہہ“۔ ”بیٹا یہ کیا کہہ رہے ہو؟ کس نے کی ہے تمہاری ایسی تربیت۔۔۔۔۔؟ ہم ہی تو تمہارے مربی ہیں۔“ ان کی قوتِ گویائی سلب ہو گئی ہو۔ ”ملنا چاہیں گے اس سے جس نے میری تربیت کی؟ جس نے مجھے شعور دیا؟“ علی سکندر ایش ٹرے میں سگریٹ کو مسلتے ہوئے اٹھتا ہے گویا وہ راکھ ان قدروں کی ہو جنہیں وہ عرصہ پہلے مسل چکا ہو۔

وہ اپنے باپ کو لے کر لاؤنج میں آتا ہے اور اشارہ کرتا ہے اپنی تربیت گاہ کی طرف۔۔۔۔۔
.
.
.

.................وہ تھا ٹیلی ویژن!!!

.....................................................................................................................................................
زندگی کی رہگزر میں چلتا راہ گیر جب بودے بیج بوتا ہے تو قانونِ قدرت سے خوش آب فصل کا متمنی ہوتا ہے۔ شاید یہ پیکر خاک لاعلم ہے کہ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ پھر فصل کو اپنی امیدوں کے برعکس پروان چڑھنے پر وہ شکوہ کناں کیوں؟ پیر جواناں جب اپنی پود کو اخلاقی قدروں، توجہ و اخلاص سے آراستہ کرنے سے معذور ہے تو اقبال کے شاہینوں سے شکایت کیسی۔۔۔۔۔؟؟؟


Comments

Post a Comment

Your feedback is appreciated!

Popular posts from this blog

Australian Medical Council AMC Part 1 Guide - Experience and Tips

FSc Pre Medical Road to Success- A Detailed Guide by Toppers

Final Year Surgery Exam: Important topics